Surah Al A'raf Tafseer
Tafseer of Al-A'raf : 54
Saheeh International
Indeed, your Lord is Allah, who created the heavens and earth in six days and then established Himself above the Throne. He covers the night with the day, [another night] chasing it rapidly; and [He created] the sun, the moon, and the stars, subjected by His command. Unquestionably, His is the creation and the command; blessed is Allah, Lord of the worlds.
Tafsir Ahsanul Bayaan
Tafseer 'Tafsir Ahsanul Bayaan' (UR)
بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے (١) پھر عرش پر قائم ہوا (٢) وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے (٣) اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ ٥٤۔١ یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسی لئے اس کو یوم البست کہا جاتا ہے، کیونکہ سبت کے معنی ہیں قطع (کاٹنے) کے ہیں یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع ہوگیا۔ پھر اس دن سے کیا مراد ہے؟ ہماری دنیا کا دن، جو طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے اور غروب شمس پر ختم ہو جاتا ہے۔ یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے؟ جس طرح کہ اللہ کے یہاں کے دن کی گنتی ہے، یا جس طرح قیامت کے دن کے بارے میں آتا ہے۔ بظاہر یہ دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس وقت سورج چاند کا یہ نظام ہی نہیں تھا، آسمان اور زمین کی تخلیق کے بعد ہی یہ نظام قائم ہوا دوسرے یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے، اس لئے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے، ہم قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالٰی تو کُنْ سے سب کچھ پیدا کر سکتا تھا، اس کے باوجود اس نے ہرچیز کو الگ الگ درجہ بدرجہ سلسلہ وار بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے تاہم بعض علماء نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار اور تدریج (سلسلہ وار) کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے۔ وَا للّٰہُ اَعْلَم ٥٤۔٢ یعنی اللہ تعالٰی عرش پر مستقر ( ّٹھہرا) ہے۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حماد کا قول ہے ' جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا، اس نے بھی کفر کیا ' اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول کی بیان بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے۔ اس لئے جو باتیں اللہ تعالٰی کے بارے میں نص(قطعی حکم) سے ثابت ہیں، ان پر بلا تاویل اور بلا کیف و تشبیہ پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر) ٥٤۔٣ حثیثا کے معنی ہیں نہایت تیزی سے اور مطلب ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فورا آجاتا ہے یعنی دن کی روشنی آتی ہے تو رات کی تاریکی فوراً غائب ہو جاتی ہے اور رات آتی ہے تو دن کا اجالا ختم ہو جاتا ہے اور سب دور و نزدیک سیاہی چھا جاتی ہے۔
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Are You Sure you want to Delete Pin
“” ?
Add to Collection
Bookmark
Pins
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Audio Settings