Surah At Talaq Tafseer
Tafseer of At-Talaq : 1
Saheeh International
O Prophet, when you [Muslims] divorce women, divorce them for [the commencement of] their waiting period and keep count of the waiting period, and fear Allah, your Lord. Do not turn them out of their [husbands'] houses, nor should they [themselves] leave [during that period] unless they are committing a clear immorality. And those are the limits [set by] Allah . And whoever transgresses the limits of Allah has certainly wronged himself. You know not; perhaps Allah will bring about after that a [different] matter.
Tafsir Ahsanul Bayaan
Tafseer 'Tafsir Ahsanul Bayaan' (UR)
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو (١) تو ان کی عدت (کے دنوں کے آغاز) میں انہیں طلاق دو (٢) اور عدت کا حساب رکھو (٣) اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھر سے نکالو (٤) اور نہ وہ (خود) نکلیں (٥) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں (٦) یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو شخص اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقیناً اپنے اوپر ظلم کیا (۷) تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالٰی کوئی نئی بات پیدا کردے ١۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کر لو۔ ١۔٢ اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دوحالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں ۔ ۔ ١۔٣ یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کر سکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو ١۔٤ یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ ١۔٥ یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔ ١۔٦ یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔ ١۔٧ یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Are You Sure you want to Delete Pin
“” ?
Add to Collection
Bookmark
Pins
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Audio Settings