Surah Al Mumtahanah Tafseer
Tafseer of Al-Mumtahanah : 10
Saheeh International
O you who have believed, when the believing women come to you as emigrants, examine them. Allah is most knowing as to their faith. And if you know them to be believers, then do not return them to the disbelievers; they are not lawful [wives] for them, nor are they lawful [husbands] for them. But give the disbelievers what they have spent. And there is no blame upon you if you marry them when you have given them their due compensation. And hold not to marriage bonds with disbelieving women, but ask for what you have spent and let them ask for what they have spent. That is the judgement of Allah ; He judges between you. And Allah is Knowing and Wise.
Tafsir Ibn Kathir
Tafseer 'Tafsir Ibn Kathir' (UR)
صلح حدیبیہ کا ایک پہلو سورة فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہوچکا ہے، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کردیں، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کردیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابو میط (رض) مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کردی گئی، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے ؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق (رض) کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا۔ مثلاً یہ معلوم ہوجائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہوجائے کہ یہ باایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہوجانا ممکن امر ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کردیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا، جیسے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمہ تھیں، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ (رض) کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کردو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آزاد کردیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کرلیا اور حضرت زید بن حارثہ (رض) کے ساتھ بھیج بھی دیا، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابو العاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کردیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابو العاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا، امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد (رح) وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہوجاتا ہے، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کرلینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کرلے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کردو جیسے کہ مہر۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی حرج نہیں، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر (رض) نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کرلیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا باایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہوجائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کردو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابو امیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کرلیا یہ بھی مشرک تھا، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کرلیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آجائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو ۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہوچکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کردیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ (رح) یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں۔ حضرت زہری (رح) فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کردیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آجائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا، حضرت ابن عباس (رض) سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کردو، یعنی مہر مثل، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ۔
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Are You Sure you want to Delete Pin
“” ?
Add to Collection
Bookmark
Pins
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Audio Settings