Surah Al Ma'idah Tafseer

Surah
Juz
Page
1
Al-Fatihah
The Opener
001
2
Al-Baqarah
The Cow
002
3
Ali 'Imran
Family of Imran
003
4
An-Nisa
The Women
004
5
Al-Ma'idah
The Table Spread
005
6
Al-An'am
The Cattle
006
7
Al-A'raf
The Heights
007
8
Al-Anfal
The Spoils of War
008
9
At-Tawbah
The Repentance
009
10
Yunus
Jonah
010
11
Hud
Hud
011
12
Yusuf
Joseph
012
13
Ar-Ra'd
The Thunder
013
14
Ibrahim
Abraham
014
15
Al-Hijr
The Rocky Tract
015
16
An-Nahl
The Bee
016
17
Al-Isra
The Night Journey
017
18
Al-Kahf
The Cave
018
19
Maryam
Mary
019
20
Taha
Ta-Ha
020
21
Al-Anbya
The Prophets
021
22
Al-Hajj
The Pilgrimage
022
23
Al-Mu'minun
The Believers
023
24
An-Nur
The Light
024
25
Al-Furqan
The Criterion
025
26
Ash-Shu'ara
The Poets
026
27
An-Naml
The Ant
027
28
Al-Qasas
The Stories
028
29
Al-'Ankabut
The Spider
029
30
Ar-Rum
The Romans
030
31
Luqman
Luqman
031
32
As-Sajdah
The Prostration
032
33
Al-Ahzab
The Combined Forces
033
34
Saba
Sheba
034
35
Fatir
Originator
035
36
Ya-Sin
Ya Sin
036
37
As-Saffat
Those who set the Ranks
037
38
Sad
The Letter "Saad"
038
39
Az-Zumar
The Troops
039
40
Ghafir
The Forgiver
040
41
Fussilat
Explained in Detail
041
42
Ash-Shuraa
The Consultation
042
43
Az-Zukhruf
The Ornaments of Gold
043
44
Ad-Dukhan
The Smoke
044
45
Al-Jathiyah
The Crouching
045
46
Al-Ahqaf
The Wind-Curved Sandhills
046
47
Muhammad
Muhammad
047
48
Al-Fath
The Victory
048
49
Al-Hujurat
The Rooms
049
50
Qaf
The Letter "Qaf"
050
51
Adh-Dhariyat
The Winnowing Winds
051
52
At-Tur
The Mount
052
53
An-Najm
The Star
053
54
Al-Qamar
The Moon
054
55
Ar-Rahman
The Beneficent
055
56
Al-Waqi'ah
The Inevitable
056
57
Al-Hadid
The Iron
057
58
Al-Mujadila
The Pleading Woman
058
59
Al-Hashr
The Exile
059
60
Al-Mumtahanah
She that is to be examined
060
61
As-Saf
The Ranks
061
62
Al-Jumu'ah
The Congregation, Friday
062
63
Al-Munafiqun
The Hypocrites
063
64
At-Taghabun
The Mutual Disillusion
064
65
At-Talaq
The Divorce
065
66
At-Tahrim
The Prohibition
066
67
Al-Mulk
The Sovereignty
067
68
Al-Qalam
The Pen
068
69
Al-Haqqah
The Reality
069
70
Al-Ma'arij
The Ascending Stairways
070
71
Nuh
Noah
071
72
Al-Jinn
The Jinn
072
73
Al-Muzzammil
The Enshrouded One
073
74
Al-Muddaththir
The Cloaked One
074
75
Al-Qiyamah
The Resurrection
075
76
Al-Insan
The Man
076
77
Al-Mursalat
The Emissaries
077
78
An-Naba
The Tidings
078
79
An-Nazi'at
Those who drag forth
079
80
Abasa
He Frowned
080
81
At-Takwir
The Overthrowing
081
82
Al-Infitar
The Cleaving
082
83
Al-Mutaffifin
The Defrauding
083
84
Al-Inshiqaq
The Sundering
084
85
Al-Buruj
The Mansions of the Stars
085
86
At-Tariq
The Nightcommer
086
87
Al-A'la
The Most High
087
88
Al-Ghashiyah
The Overwhelming
088
89
Al-Fajr
The Dawn
089
90
Al-Balad
The City
090
91
Ash-Shams
The Sun
091
92
Al-Layl
The Night
092
93
Ad-Duhaa
The Morning Hours
093
94
Ash-Sharh
The Relief
094
95
At-Tin
The Fig
095
96
Al-'Alaq
The Clot
096
97
Al-Qadr
The Power
097
98
Al-Bayyinah
The Clear Proof
098
99
Az-Zalzalah
The Earthquake
099
100
Al-'Adiyat
The Courser
100
101
Al-Qari'ah
The Calamity
101
102
At-Takathur
The Rivalry in world increase
102
103
Al-'Asr
The Declining Day
103
104
Al-Humazah
The Traducer
104
105
Al-Fil
The Elephant
105
106
Quraysh
Quraysh
106
107
Al-Ma'un
The Small kindnesses
107
108
Al-Kawthar
The Abundance
108
109
Al-Kafirun
The Disbelievers
109
110
An-Nasr
The Divine Support
110
111
Al-Masad
The Palm Fiber
111
112
Al-Ikhlas
The Sincerity
112
113
Al-Falaq
The Daybreak
113
114
An-Nas
Mankind
114

Al-Ma'idah : 3

5:3
حُرِّمَتْعَلَيْكُمُٱلْمَيْتَةُوَٱلدَّمُوَلَحْمُٱلْخِنزِيرِوَمَآأُهِلَّلِغَيْرِٱللَّهِبِهِۦوَٱلْمُنْخَنِقَةُوَٱلْمَوْقُوذَةُوَٱلْمُتَرَدِّيَةُوَٱلنَّطِيحَةُوَمَآأَكَلَٱلسَّبُعُإِلَّامَاذَكَّيْتُمْوَمَاذُبِحَعَلَىٱلنُّصُبِوَأَنتَسْتَقْسِمُوا۟بِٱلْأَزْلَٰمِذَٰلِكُمْفِسْقٌٱلْيَوْمَيَئِسَٱلَّذِينَكَفَرُوا۟مِندِينِكُمْفَلَاتَخْشَوْهُمْوَٱخْشَوْنِٱلْيَوْمَأَكْمَلْتُلَكُمْدِينَكُمْوَأَتْمَمْتُعَلَيْكُمْنِعْمَتِىوَرَضِيتُلَكُمُٱلْإِسْلَٰمَدِينًافَمَنِٱضْطُرَّفِىمَخْمَصَةٍغَيْرَمُتَجَانِفٍلِّإِثْمٍفَإِنَّٱللَّهَغَفُورٌرَّحِيمٌ ٣

Saheeh International

Prohibited to you are dead animals, blood, the flesh of swine, and that which has been dedicated to other than Allah, and [those animals] killed by strangling or by a violent blow or by a head-long fall or by the goring of horns, and those from which a wild animal has eaten, except what you [are able to] slaughter [before its death], and those which are sacrificed on stone altars, and [prohibited is] that you seek decision through divining arrows. That is grave disobedience. This day those who disbelieve have despaired of [defeating] your religion; so fear them not, but fear Me. This day I have perfected for you your religion and completed My favor upon you and have approved for you Islam as religion. But whoever is forced by severe hunger with no inclination to sin - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

Tafseer 'Tafsir Ibn Kathir' (UR)

پرندوں کے بارے میں نہیں، شیخ ابو علی افصاح میں فرماتے ہیں جب ہم نے یہ طے کرلیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کھالیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری پرند کھالے اس میں دو وجوہات ہیں۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے۔ کیونکہ امام شافعی نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ متردیہ وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مرگیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے، ابن عباس یہی فرماتے ہیں۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گرپڑے، نطیحہ وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مرجائے، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے عین کحیل اور کف خضیب ان مواقع میں کحیلتہ اور خضیبتہ نہی کہتے، اس جگہ تے اس لئے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے، جیسے عرب کا یہ کلام طریقتہ طویلتہ۔ بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی ثانیث پر دلالت ہوجائے بخلاف کحیل اور خضیب کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے۔ آیت (ما اکل اسبع) سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھاجائے اور اس سبب سے مرجائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے۔ اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھالیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا۔ پھر فرماتا ہے مگر وہ جسے تم ذبح کرلو، یعنی گلا گھونٹا، لٹھ مارا ہوا، اوپر سے گرپڑا ہو، سینگ اور ٹکر لگا ہو، درندوں کا کھایا ہو، اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حلال ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس سعید بن جیبر، حسن اور سدی یہی فرماتے ہیں، حضرت علی سے مروی ہے اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بیشک ذبح کر کے کھالو، ابن جریر میں آپ سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گرپڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو۔ حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہوجائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہوجائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے، امام مالک اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہوگا ؟ ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کر کے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں، سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی، آپ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے، فرمایا میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے۔ یہ ہے امام مالک کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لئے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہئے، واللہ اعلم۔ بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا۔ '' حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کل دشمن سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کرلیں '' آپ نے فرمایا '' جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے، اسے کھالو، سوائے دانت اور ناخن کے، یہ اس لئے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں '' مسند احمد اور سنن میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ '' ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے '' یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں، ابن جریج فرماتے ہیں '' یہ تین سو ساٹھ بت تھے، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے '' پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کانا بھی حرام کردیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کیا ہے، اور اسی لائق ہے، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہوچکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔ (ازلام) سے تقسیم کرنا حرام ہے، یہ جاہلیت کے عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے، ایک پر لکھا ہوا تھا افعل یعنی کر، دوسرے پر لکھا ہوا تھا لاتعفل یعنی نہ کر، تیسرا خالی تھا۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا حکم ہے، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا۔ بطور قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے، اگر حکم '' کر '' نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آجاتے اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، ازلام جمع ہے زلم کی اور بعض زلم بھی کہتے ہیں۔ استسقام کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تھے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آکر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مجسمے گڑے ہوئے پائے، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے خلاف تھا میں نے پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا، میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں ہوا تھا، یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں '' وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پاسکتا جو کہانت کرے، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے '' حضرت مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے۔ ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے۔ واللہ اعلم۔ اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا '' ایمان والو ! شراب، جواء، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے '' اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے، اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرلو، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو۔ مسند احمد، بخاری اور سنن میں مروی ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے، آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آپڑے تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر وتعلم اولا اعلم وانت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیر لی فی دینی ودنیای ومعاشی وعاقبتہ امری فقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم انہ شر لی فی دینی ونیای ومعاشی وعاقبتہ امری فاصرفہ عنی واقدرلی الخیر حیث کان ثم رضنی بہ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بےعلم ہوں، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے میرے لئے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لئے خیرو برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و ضا مند کر دے۔ دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں ھذا الامر جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو ھذا النکاح سفر میں ہو تو ھذا السفر بیوپار میں ہو تو ھذا التجارۃ وغیرہ۔ بعض روایتوں میں خیر لی فی دینی سے امری تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں۔ دعا (خیر لی فی عاجل امری و اجلہ) ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں، پھر فرماتا ہے آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کرسکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل کرلیں۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے '' فرمایا شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے۔ '' یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہوگئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا، اسی لئے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کریگا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند وبالا رکھے گا۔ پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ '' میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کردیا، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں، نہ اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کسی بنی کی تمہیں حاجت ہے، اللہ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم الانبیاء کیا ہے، انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے، حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں، حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں، دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہیں ''۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا) 6 ۔ الانعام :1145) یعنی تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں، اس لئے تم بھی اسی پر راضی رہو، یہی دین اللہ کا پسندیدہ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا، حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں '' اس آخری حج میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ میں بھی تھی، ہم جا رہے تھے اتنے میں حضرت جبرائیل کی تجلی ہوئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اڑھا دی ''۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیات رہے، حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے، اب وہ کامل ہوگیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہوجاتا ہے، آپ نے فرمایا سچ ہے، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہوجائیگا، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5 ۔ المائدہ :3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے '' حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب نے حضرت عمر سے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر نے فرمایا یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن تھی۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے، حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے۔ حضرت سمرہ فرماتے ہیں اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موقف میں کھڑے ہوئے تھے، ابن عباس سے مروی ہے کہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر والے دن پیدا ہوئے، پیر والے دن نبی بنائے گئے، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا، اس میں سورة مائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں، میرا خیال یہ ہے کہ ابن عباس نے کہا ہوگا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لئے راوی کو شبہ سا ہوگیا واللہ اعلم۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل ہوئی ہے جس دن کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کی نسبت فرمایا تھا کہ جس کا مولیٰ میں ہوں، اس کا مولیٰ علی ہے گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی، جبکہ آپ حجتہ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں۔ بالکل صحیح اور بیشک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے، امیر المومنین عمر بن خطاب اور امیر المومنین علی بن ابو طالب اور امیر المومنین حضرت امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت سمرہ بن جندب سے یہی مروی ہے اور اسی کو حضرت شعبی، حضرت قتادہ، حضرت شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء نے کہا ہے، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری کا ہے، پھر فرماتا ہے '' جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بےبس ہوجائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لاسکتا ہے۔ اللہ غفور و رحیم ہے، وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بےبسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے، اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے، اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہوجاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہوجاتا ہے اور کبھی مباح، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھالے ؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کرلے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھالے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے، اس میں دو قول ہیں امام شافعی سے دونوں مروی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہوجائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار، بےقراری اور مجبوری حالت میں ہو، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہوجاتا ہے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آجاتی ہے، تو ہمارے لئے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا '' جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے۔ '' اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے، لیکن مسند والی مرفع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے۔ ابن عون فرماتے ہیں حضرت حسن کے پاس حضرت سمرہ کی کتاب تھی، جسے میں ان کے سامنے پڑھتا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے، ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' حرام کھانا کب حلال ہوجاتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کرسکے اور جب تک ان کا سامان نہ آجائے۔ '' ایک اعرابی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حلال حرام کا سوال کیا، آپ نے جواب دیا کہ '' کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہوجائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہوجائے '' اس نے پھر دریافت کیا کہ '' وہ محتاجی کونسی جس میں میرے لئے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کونسا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے '' فرمایا۔ '' جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کرسکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر۔ '' ابو داؤد میں ہے حضرت نجیع عامری نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ '' ہمارے لئے مردار کا کھانا کب حلال ہوجاتا ہے ؟ '' آپ نے فرمایا '' تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے ؟ '' اس نے کہا '' صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ '' آپ نے کہا '' یہی ہے اور کونسی بھوک ہوگی ؟ '' پس اس حالت میں آپ نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا، بھوک باقی رہتی تھی، اس لئے ان پر مردہ حلال کردیا گیا، تاکہ وہ پیٹ بھر لیا کریں، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو، یہ حد ٹھیک نہیں واللہ اعلم۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں ٹھہرا، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہوگئی تھی، اس نے ان سے کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا۔ اتفاق سے یہ اونٹنی اسے مل گئی، اب یہ اس کے مالک کو تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑگئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں، تم اسے ذبح کر ڈالو لیکن اس نے انکار کردیا، آخر اونٹنی مرگئی تو پھر بیوی صاحبہ نے کہا، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور چربی کو ٹکڑے کر کے سلکھا لو، ہم بھوکوں کو کام آجائیگا، اس بزرگ نے جواب دیا، میں تو یہ بھی نہیں کرونگا، ہاں اگر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت دے دیں تو اور بات ہے۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو ؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا پھر تم کھا سکتے ہو۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا ؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے، جیسے سورة بقرہ میں ہے آیت (فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ :173) یعنی وہ شخص بےقرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں، اس لئے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں واللہ تعالیٰ اعلم۔

Quran Mazid
go_to_top
Quran Mazid
Surah
Juz
Page
1
Al-Fatihah
The Opener
001
2
Al-Baqarah
The Cow
002
3
Ali 'Imran
Family of Imran
003
4
An-Nisa
The Women
004
5
Al-Ma'idah
The Table Spread
005
6
Al-An'am
The Cattle
006
7
Al-A'raf
The Heights
007
8
Al-Anfal
The Spoils of War
008
9
At-Tawbah
The Repentance
009
10
Yunus
Jonah
010
11
Hud
Hud
011
12
Yusuf
Joseph
012
13
Ar-Ra'd
The Thunder
013
14
Ibrahim
Abraham
014
15
Al-Hijr
The Rocky Tract
015
16
An-Nahl
The Bee
016
17
Al-Isra
The Night Journey
017
18
Al-Kahf
The Cave
018
19
Maryam
Mary
019
20
Taha
Ta-Ha
020
21
Al-Anbya
The Prophets
021
22
Al-Hajj
The Pilgrimage
022
23
Al-Mu'minun
The Believers
023
24
An-Nur
The Light
024
25
Al-Furqan
The Criterion
025
26
Ash-Shu'ara
The Poets
026
27
An-Naml
The Ant
027
28
Al-Qasas
The Stories
028
29
Al-'Ankabut
The Spider
029
30
Ar-Rum
The Romans
030
31
Luqman
Luqman
031
32
As-Sajdah
The Prostration
032
33
Al-Ahzab
The Combined Forces
033
34
Saba
Sheba
034
35
Fatir
Originator
035
36
Ya-Sin
Ya Sin
036
37
As-Saffat
Those who set the Ranks
037
38
Sad
The Letter "Saad"
038
39
Az-Zumar
The Troops
039
40
Ghafir
The Forgiver
040
41
Fussilat
Explained in Detail
041
42
Ash-Shuraa
The Consultation
042
43
Az-Zukhruf
The Ornaments of Gold
043
44
Ad-Dukhan
The Smoke
044
45
Al-Jathiyah
The Crouching
045
46
Al-Ahqaf
The Wind-Curved Sandhills
046
47
Muhammad
Muhammad
047
48
Al-Fath
The Victory
048
49
Al-Hujurat
The Rooms
049
50
Qaf
The Letter "Qaf"
050
51
Adh-Dhariyat
The Winnowing Winds
051
52
At-Tur
The Mount
052
53
An-Najm
The Star
053
54
Al-Qamar
The Moon
054
55
Ar-Rahman
The Beneficent
055
56
Al-Waqi'ah
The Inevitable
056
57
Al-Hadid
The Iron
057
58
Al-Mujadila
The Pleading Woman
058
59
Al-Hashr
The Exile
059
60
Al-Mumtahanah
She that is to be examined
060
61
As-Saf
The Ranks
061
62
Al-Jumu'ah
The Congregation, Friday
062
63
Al-Munafiqun
The Hypocrites
063
64
At-Taghabun
The Mutual Disillusion
064
65
At-Talaq
The Divorce
065
66
At-Tahrim
The Prohibition
066
67
Al-Mulk
The Sovereignty
067
68
Al-Qalam
The Pen
068
69
Al-Haqqah
The Reality
069
70
Al-Ma'arij
The Ascending Stairways
070
71
Nuh
Noah
071
72
Al-Jinn
The Jinn
072
73
Al-Muzzammil
The Enshrouded One
073
74
Al-Muddaththir
The Cloaked One
074
75
Al-Qiyamah
The Resurrection
075
76
Al-Insan
The Man
076
77
Al-Mursalat
The Emissaries
077
78
An-Naba
The Tidings
078
79
An-Nazi'at
Those who drag forth
079
80
Abasa
He Frowned
080
81
At-Takwir
The Overthrowing
081
82
Al-Infitar
The Cleaving
082
83
Al-Mutaffifin
The Defrauding
083
84
Al-Inshiqaq
The Sundering
084
85
Al-Buruj
The Mansions of the Stars
085
86
At-Tariq
The Nightcommer
086
87
Al-A'la
The Most High
087
88
Al-Ghashiyah
The Overwhelming
088
89
Al-Fajr
The Dawn
089
90
Al-Balad
The City
090
91
Ash-Shams
The Sun
091
92
Al-Layl
The Night
092
93
Ad-Duhaa
The Morning Hours
093
94
Ash-Sharh
The Relief
094
95
At-Tin
The Fig
095
96
Al-'Alaq
The Clot
096
97
Al-Qadr
The Power
097
98
Al-Bayyinah
The Clear Proof
098
99
Az-Zalzalah
The Earthquake
099
100
Al-'Adiyat
The Courser
100
101
Al-Qari'ah
The Calamity
101
102
At-Takathur
The Rivalry in world increase
102
103
Al-'Asr
The Declining Day
103
104
Al-Humazah
The Traducer
104
105
Al-Fil
The Elephant
105
106
Quraysh
Quraysh
106
107
Al-Ma'un
The Small kindnesses
107
108
Al-Kawthar
The Abundance
108
109
Al-Kafirun
The Disbelievers
109
110
An-Nasr
The Divine Support
110
111
Al-Masad
The Palm Fiber
111
112
Al-Ikhlas
The Sincerity
112
113
Al-Falaq
The Daybreak
113
114
An-Nas
Mankind
114
Settings