Surah Al Baqarah Tafseer
Tafseer of Al-Baqarah : 243
Saheeh International
Have you not considered those who left their homes in many thousands, fearing death? Allah said to them, "Die"; then He restored them to life. And Allah is full of bounty to the people, but most of the people do not show gratitude.
Tafsir Ibn Kathir
Tafseer 'Tafsir Ibn Kathir' (UR)
موت اور زندگی : ابن عباس فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے، بعض تو ہزار کہتے ہیں، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں، یہ لوگ ذرو روان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مرگئے، اتفاق سے ایک نبی اللہ کا وہاں سے گزرا، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کردیا، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہوگیا، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم سب جمع ہوجاؤ، چناچہ ہر ہر جسم کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا پھر اللہ کا حکم ہوا ندا کرو کہ اے ہڈیو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو، چناچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہوگیا، پھر آواز آئی کہ اے روحو اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آجائے چناچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ انکی زبان سے نکلا ( سبحانک لا الہ الا انت) اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اٹھنے کی۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بےشکرے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہوگئے، مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف چلے اور سرنح میں پہنچے تو ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چناچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں، بالآخر عبدالرحمن بن عوف جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ۔ حضرت عمر فاروق نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے (بخاری مسلم) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا۔
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Are You Sure you want to Delete Pin
“” ?
Add to Collection
Bookmark
Pins
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Audio Settings