Surah Al Furqan Tafseer
Tafseer of Al-Furqan : 17
Saheeh International
And [mention] the Day He will gather them and that which they worship besides Allah and will say, "Did you mislead these, My servants, or did they [themselves] stray from the way?"
Tafsir Ibn Kathir
Tafseer 'Tafsir Ibn Kathir' (UR)
عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات بیان ہو رہا ہے کہ مشرک جن جن کی عبادتیں اللہ کے سوا کرتے رہے قیامت کے دن انہیں ان کے سامنے ان پر عذاب کے علاوہ زبانی سرزنش بھی کی جائے گی تاکہ وہ نادم ہوں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت عزیر (علیہ السلام) اور فرشتے جن جن کی عبادت ہوئی تھی سب موجود ہوں گے اور ان کے عابد بھی۔ سب اسی مجمع میں موجود ہوں گے۔ اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ ان معبودوں سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں سے اپنی عبادت کرنے کو کہا تھا ؟ یا یہ از خود ایسا کرنے لگے ؟ چناچہ اور آیت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی یہی سوال ہوگا۔ جس کا وہ جواب دیں گے کہ میں نے انہیں ہرگز اس بات کی تعلیم نہیں دی یہ جیسا کہ تجھ پر خوب روشن ہے میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جو تو نے مجھ سے کہا تھا کہ عبادت کے لائق فقط اللہ ہی ہے۔ یہ سب معبود جو اللہ کے سوا تھے اور اللہ کے سچے بندے تھے اور شرک سے بیزار تھے جواب دیں گے کہ کسی مخلوق کو ہم کو یا ان کو یہ لائق ہی نہ تھا کہ تیرے سوا کسی اور کی عبادت کریں ہم نے ہرگز انہیں اس شرک کی تعلیم نہیں دی۔ خود ہی انہوں نے اپنی خوشی سے دوسروں کی پوجا شروع کردی تھی ہم ان سے اور ان کی عبادتوں سے بیزار ہیں۔ ہم ان کے اس شرک سے بری الذمہ ہیں۔ ہم تو خود تیرے عابد ہیں۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ معبودیت کے منصب پر آجاتے ؟ یہ تو ہمارے لائق ہی نہ تھا، تیری ذات اس سے بہت پاک اور برتر ہے کہ کوئی تیرا شریک ہو۔ چناچہ اور آیت میں صرف فرشتوں سے اس سوال جواب کا ہونا بھی بیان ہوا ہے۔ نتخذ کی دوسری قرأت نتخذ بھی ہے یعنی یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا تھا، نہ یہ ہمارے لائق تھا کہ لوگ ہمیں پوجنے لگیں اور تیری عبادت چھوڑ دیں۔ کیونکہ ہم تو خود تیرے بندے ہیں، تیرے در کے بھکاری ہیں۔ مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک ہی ہے۔ ان کے بہکنے کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہ آتی ہے کہ انہیں عمریں ملیں، ہی بہت کھانے پینے کو ملتا رہا بد مستی میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ جو نصیحت رسولوں کی معرفت پہنچی تھی اسے بھلا دیا۔ تیری عبادت سے اور سچی توحید سے ہٹ گئے۔ یہ لوگ تھے یہ بیخبر ، ہلاکت کے گڑھے میں گرپڑے۔ تباہ و برباد ہوگئے بورا سے مطلب ہلاک والے ہی ہیں۔ جیسے ابن زبعری نے اپنے شعر میں اس لفظ کو اس معنی میں باندھا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے فرمائے گا لو اب تو تمہارے یہ معبود خود تمہیں جھٹلا رہے ہیں تم تو انہیں اپنا سمجھ کر اس خیال سے کہ یہ تمہیں اللہ کے مقرب بنادیں گے ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے، آج یہ تم سے کوسوں دور بھاگ رہے ہیں تم سے یکسو ہو رہے ہیں اور بیزاری ظاہر کررہے ہیں۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ ) 46 ۔ الأحقاف :5) ، یعنی اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی چاہت پوری نہ کرسکیں بلکہ وہ تو ان کی دعا سے محض غافل ہیں اور محشر والے دن یہ سب ان سب کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادتوں کے صاف منکر ہوجائیں گے۔ پس قیامت کے دن یہ مشرکین نہ تو اپنی جانوں سے عذاب اللہ ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی مدد کرسکیں گے نہ کسی کو اپنا مددگار پائیں گے۔ تم میں سے جو بھی اللہ واحد کے ساتھ شرک کرے ہم اسے زبردست اور نہایت سخت عذاب کریں گے۔
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Be our beacon of hope! Your regular support fuels our mission to share Quranic wisdom. Donate monthly; be the change we need!
Are You Sure you want to Delete Pin
“” ?
Add to Collection
Bookmark
Pins
Social Share
Share With Social Media
Or Copy Link
Audio Settings