33:51

تُرۡجِى مَن تَشَآءُ مِنۡهُنَّ وَتُــۡٔوِىٓ إِلَيۡكَ مَن تَشَآءُۖ وَمَنِ ٱبۡتَغَيۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكَۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَن تَقَرَّ أَعۡيُنُهُنَّ وَلَا يَحۡزَنَّ وَيَرۡضَيۡنَ بِمَآ ءَاتَيۡتَهُنَّ كُلُّهُنَّۚ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ مَا فِى قُلُوبِكُمۡۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا٥١

Saheeh International

You, [O Muhammad], may put aside whom you will of them or take to yourself whom you will. And any that you desire of those [wives] from whom you had [temporarily] separated - there is no blame upon you [in returning her]. That is more suitable that they should be content and not grieve and that they should be satisfied with what you have given them - all of them. And Allah knows what is in your hearts. And ever is Allah Knowing and Forbearing.

Tafsir "Tafsir Ibn Kathir" (Urdu)

روایات و احکامات بخاری شریف میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ کا رب آپ کے لئے کشادگی کرتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں عامر شعبی سے مروی ہے کہ جنہیں موخر کر رکھا تھا ان میں حضرت ام شریک تھی۔ ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بیویوں کے بارے میں آپ کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں موخر کریں۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے۔ بعض فقہاء شافعیہ کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے اجازت لیا کرتے تھے۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ کو ہرگز نہ جانے دوں۔ پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہوجاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ کی بیویوں سب کو شامل ہے۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار تھا۔ پھر فرماتا ہے کہ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے سہولت والا ہے۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داددیں گی۔ اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے۔ مسند میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کردیا۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں۔ اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے۔ لیکن حلم و کرم والا ہے۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے۔

Arabic Font Size

30

Translation Font Size

17

Arabic Font Face

Help spread the knowledge of Islam

Your regular support helps us reach our religious brothers and sisters with the message of Islam. Join our mission and be part of the big change.

Support Us