12:15
فَلَمَّا ذَهَبُواۡ بِهِۦ وَأَجۡمَعُوٓاۡ أَن يَجۡعَلُوهُ فِى غَيَٰبَتِ ٱلۡجُبِّۚ وَأَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمۡرِهِمۡ هَٰذَا وَهُمۡ لَا يَشۡعُرُونَ١٥
Saheeh International
So when they took him [out] and agreed to put him into the bottom of the well... But We inspired to him, "You will surely inform them [someday] about this affair of theirs while they do not perceive [your identity]."
بھائی اپنے منصوبہ میں کامیاب ہوگئے۔ سمجھا بجھا کر بھائیوں نے باپ کو راضی کر ہی لیا۔ اور حضرت یوسف کو لے کر چلے جنگل میں جا کر سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یوسف کو کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں ڈال دیں۔ حالانکہ باپ سے یہ کہہ کرلے گئے تھے کہ اس کا جی بہلے گا، ہم اسے عزت کے ساتھ لے جائیں گے۔ ہر طرح خوش رکھیں گے۔ اس کا جی بہل جائے گا اور یہ راضی خوشی رہے گا۔ یہاں آتے ہی غداری شروع کردی اور لطف یہ ہے کہ سب نے ایک ساتھ دل سخت کرلیا۔ باپ نے ان کی باتوں میں آکر اپنے لخت جگر کو ان کے سپرد کردیا۔ جاتے ہوئے سینے سے لگا کر پیار پچکار کر دعائیں دے کر رخصت کیا۔ باپ کی آنکھوں سے ہٹتے ہی ان سب نے بھائی کو ایذائیں دینی شروع کردیں برا بھلا کہنے لگے اور چانٹا چٹول سے بھی باز نہ رہے۔ مارتے پیٹتے برا بھلا کہتے، اس کنویں کے پاس پہنچے اور ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر کنویں میں گرانا چاہا۔ آپ ایک ایک کے دامن سے چمٹتے ہیں اور ایک ایک سے رحم کی درخواست کرتے ہیں لیکن ہر ایک جھڑک دیتا ہے اور دھکا دے کر مار پیٹ کر ہٹا دیتا ہے مایوس ہوگئے سب نے مل کر مضبوط باندھا اور کنویں میں لٹکا دیا آپ نے کنویں کا کنارا ہاتھ سے تھام لیا لیکن بھائیوں نے انگلویوں پر مار مار کر اسے بھی ہاتھ سے چھڑا لیا۔ آدھی دور آپ پہنچے ہوں گے کہ انہوں نے رسی کاٹ دی۔ آپ تہ میں جا گرے، کنویں کے درمیان ایک پتھر تھا جس پر آکر کھڑے ہوگئے۔ عین اس مصیبت کے وقت عین اس سختی اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب وحی کی کہ آپ کا دل مطمئن ہوجائے آپ صبر و برداشت سے کام لیں اور انجام کا آپ کو علم ہوجائے۔ وحی میں فرمایا گا کہ غمگین نہ ہو یہ نہ سمجھ کہ یہ مصیبت دور نہ ہوگی۔ سن اللہ تعالیٰ تجھے اس سختی کے بعد آسانی دے گا۔ اس تکلیف کے بعد راحت ملے گی۔ ان بھائیوں پر اللہ تجھے غلبہ دے گا۔ یہ گو تجھے پست کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی چاہت ہے کہ وہ تجھے بلند کرے۔ یہ جو کچھ آج تیرے ساتھ کر رہے ہیں وقت آئے گا کہ تو انہیں ان کے اس کرتوت کو یاد دلائے گا اور یہ ندامت سے سر جھکائے ہوئے ہوں گے اپنے قصور سن رہے ہوں گے۔ اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ تو وہ ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب برادران یوسف حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو آپ نے تو انہیں پہچان لیا لیکن یہ نہ پہچان سکے۔ اس وقت آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر اسے انگلی سے ٹھونکا۔ آواز نکلی ہی تھی اس وقت آپ نے فرمایا لو یہ جام تو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہارے متعلق ہی کچھ خبر دے رہا ہے۔ یہ کہہ رہا ہے تہارا ایک یوسف نامی سوتیلا بھائی تھا۔ تم اسے باپ کے پاس سے لے گئے اور اسے کنویں میں پھینک دیا۔ پھر اسے انگلی ماری اور ذرا سی دیر کان لگا کر فرمایا لو یہ کہہ رہا ہے کہ پھر تم اس کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر باپ کے پاس گئے اور وہاں جاکر ان سے کہہ دیا کہ تیرے لڑکے کو بھیڑیئے نے کھالیا۔ اب تو یہ حیران ہوگئے آپس میں کہنے لگے ہائے برا ہوا بھانڈا پھوٹ گیا اس جام نے تو تمام سچی سچی باتیں بادشاہ سے کہہ دیں۔ پس یہی ہے جو آپ کو کنویں میں وحی ہوئی کہ ان کے اس کے کرتوت کو تو انہیں ان کے بےشعوری میں جتائے گا۔
Arabic Font Size
30
Translation Font Size
17
Arabic Font Face
Help spread the knowledge of Islam
Your regular support helps us reach our religious brothers and sisters with the message of Islam. Join our mission and be part of the big change.
Support Us